the etemaad urdu daily news
آیت شریف حدیث شریف وقت نماز

ای پیپر

انگلش ویکلی

To Advertise Here
Please Contact
editor@etemaaddaily.com

اوپینین پول

کیا آپ کو لگتا ہے کہ روتوراج گائیکواڑ چنئی سپر کنگز کے لیے اچھے کپتان ثابت ہوں گے؟

جی ہاں
نہیں
کہہ نہیں سکتے
معصوم مرادآبادی

گزشتہ 24فروری کونئی دہلی میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران اقلیتی امور کے وزیر مملکت مختار عباس نقوی کے اوسان اُس وقت خطا ہوگئے جب خود انہی کی وزارت کے ایک اعلیٰ افسر نے ببانگ دہل یہ کہا کہ ’’اقلیتوں کے تعلق سے ملک میں جو ماحول پیدا ہوگیا ہے، اس کی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند حرام ہے۔ ‘‘ نئی دہلی میں ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی سالانہ کانفرنس میں مختلف ریاستوں سے آئے ہوئے مندوبین کی زباں بندی کا تو وزیرموصوف نے پورا انتظام کررکھا تھا لیکن وہ اس موقع پر خود اپنی ہی وزارت کے ایڈیشنل سکریٹری مسٹر اجے کمار کو یہ کہنے سے باز نہیں رکھ سکے کہ ’’براہ کرم اقلیتوں کے درمیان سکون واعتماد کی فضا کو یقینی بنائیں تاکہ ہم جیسے افسران چین کی نیند سوسکیں۔‘‘کانفرنس کے اختتام پر اجے کمار نے شکریہ کی تحریک پیش کرتے ہوئے مسٹر نقوی سے معذرت کے ساتھ کہاکہ’’ ملک میں اقلیتوں کے حوالے سے ایسا ماحول پیدا ہوگیا ہے کہ ہم رات کو آرام سے نہیں سوپا رہے ہیں۔‘‘ مسٹر اجے کمار 1984 بیج کے آئی اے ایس افسر ہیں اور ان کا تعلق ریاست بہار سے ہے۔ مسٹر کمار کی اس جرأت مندی کو کانفرنس میں موجود تمام مندوبین نے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ خود بھی ملک کی اقلیتوں میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا مسئلہ کانفرنس میں اٹھانا چاہتے تھے لیکن انہیں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ کیرالہ اقلیتی کمیشن کے ممبر مسٹر کے پی مری اپّا نے کہاکہ’’ یہ بے چینی کانفرنس کے ہر مندوب کو تھی کہ وہ جو کچھ کہنا چاہتے تھے انہیں کہنے نہیں دیاگیا بلکہ وقت کی قلت کا بہانہ بناکر ان کی بات مختصر کردی گئی۔‘‘مندوبین نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ ان کی تشویش کی ترجمانی خود وزارت کے ایک اعلیٰ افسر نے کردی ہے۔
مودی کابینہ میں شامل اقلیتی امور کی مرکزی وزیر نجمہ ہپت اللہ یا وزیر مملکت مختار عباس نقوی اس بات کا لاکھ ڈھنڈورا پیٹیں کہ ملک میں عدم برداشت کی جو بحث چل رہی ہے ،وہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے درمیان اقلیتوں کا بہی خواہ بننے کی کوششوں کا شاخسانہ ہے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ جب سے مودی سرکار اقتدار میں آئی ہے تب سے سنگھ پریوار کے جارحیت پسند اور اقلیت دشمن عناصر کو کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ ان کا خاص نشانہ اس ملک کی اقلیتیں اور کمزور طبقے ہیں۔ مسلمانوں کو جابجا تشدد اور جارحانہ فرقہ پرستی کا نشانہ بنایاجارہا ہے۔ ان کے بنیادی آئینی حقوق پر ڈاکہ ڈالاجارہا ہے۔ جس کا تازہ ترین ثبوت مہاراشٹر کے لاتور ضلع میں ایک مسلمان پولیس انسپکٹر کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنانے سے ملتا ہے۔ اس واقعہ کی تفصیلات پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کس طرح ڈیوٹی کے دوران ایک 57سال کے مسلم پولیس انسپکٹر کو غیر قانونی کام کرنے پر مجبور کیاگیا اور جب اس نے مزاحمت کی تو اسے بری طرح زدوکوب کیاگیا۔ اسی قسم کے مسلسل واقعات نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کو ہندوستان کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس کا ثبوت ایمنسٹی انٹرنیشنل کی وہ تازہ ترین رپورٹ ہے جس میں ہندوستان کے اندر عدم رواداری کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیاگیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ریاستی اقلیتی کمیشنوں کی سالانہ کانفرنس میں مرکزی وزیر نجمہ ہپت اللہ نے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہوئے یہ کہا کہ ان کی حکومت نے اقلیتوں کی فلاح وبہبود کے لئے سرکاری خزانے کا منہ کھول دیا ہے اور متعدد نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ لیکن وہ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دے سکیں کہ ملک کی اقلیتوں میں عدم تحفظ کا احساس مسلسل بڑھ رہا ہے ۔ تاہم وزیر مملکت مسٹر نقوی نے اس موقع پر یہ لن ترانی ضرور کی کہ’’ بعض نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں اقلیتوں کا خیرخواہ بننے کی ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں ترقی کا کارواں رک رہا ہے۔ ان پارٹیوں پر



اقلیتوں کا اعتماد تشویش کا سبب ہے۔ ‘‘
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کے تعلق سے شترمرغ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ وہ اندرون ملک اٹھنے والی آوازوں کو تو نظر انداز کرسکتی ہے لیکن اس معاملے میں عالمی تنظیموں کی طرف سے جوردعمل سامنے آرہا ہے ،وہ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شبیہ داغ دار کرنے کے لئے کافی ہے۔ ایک طرف وزیراعظم نریندرمودی ہندوستان میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لئے پوری دنیا کا سفر کررہے ہیں اور دوسری طرف سنگھ پریوار کے کارندے ملک میں فرقہ وارانہ یکجہتی اور انسانی حقوق کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔ ملک میں عدم برداشت کے بڑھتے ہوئے واقعات پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جو رپورٹ گزشتہ بدھ کو جاری کی ہے،وہ مودی سرکار کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ ہندوستان میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کی مذمت کرتے ہوئے اپنی سالانہ رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہاکہ ہے حکومت ہند مذہبی تشدد کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ فرقہ وارانہ خطوط پر عوام کو تقسیم کرنے والی تقریروں اور بیانات کے ذریعے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری پالیسیوں پر تنقید کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں پر حکومت نے غیر ملکی عطیات حاصل کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ ملک میں سینسر شپ اور شدت پسند ہندو تنظیموں کی طرف سے اظہار خیال کی آزادی پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ کتنے ہی فنکاروں ، ادیبوں اور سائنس دانوں نے عدم برداشت کے ماحول کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے قومی ایوارڈ حکومت کو واپس کردیئے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی یہ تفصیلی رپورٹ اس بات کی گواہ ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو سراٹھاکر جینے کا حق چھینا جارہا ہے۔ انہیں مذہبی شناخت کی بنیاد پر نشانہ بنایاجارہا ہے۔ شرپسندوں کے حوصلے اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ وہ نہ صرف عام لوگوں کو فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں بلکہ ایمانداری اور سچائی سے ملک وقوم کی خدمت کرنے والے عناصر پر بھی عرصہ حیات تنگ کیاجارہا ہے۔ گزشتہ دنوں اترپردیش کے دادری علاقے میں ہندوستانی فضائیہ میں خدمات انجام دینے والے ایک مسلم نوجوان کے والد محمد اخلاق کو جس سفاکی اور درندگی سے پیٹ پیٹ پر ہلاک کیاگیا تھا،اس کے بعد اب مہاراشٹرکے لاتور ضلع میں ایک باریش مسلمان پولیس انسپکٹر کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ لاتور کے بن گاؤں میں تقریباً 300 لوگوں کے ہجوم نے ایک متنازع اراضی پر بھگوا جھنڈا گاڑنے کی کوشش کی۔ اس غیرقانونی کارروائی کو روکنے کے لئے جب پولیس موقع پر پہنچی تو ہجوم نے اس پر حملہ کردیا۔ باقی پولیس اہلکار تو فرار ہوگئے لیکن بھیڑ نے 57 سالہ انسپکٹر یاسین شیخ کو پکڑلیا۔ ان کے ہاتھوں میں زبردستی بھگوا جھنڈا تھماکر جلوس نکالاگیا اور ان ہی کے ہاتھوں سے متنازع زمین پر بھگوا جھنڈا نصب کرایاگیا۔ جب یاسین شیخ نے ایسا کرنے سے منع کیا تو بے قابو ہجوم نے بری طرح ان کی پٹائی کی اور انہیں لہولہان کردیا۔ یاسین شیخ ایک اسپتال میں اپنے زخموں کا علاج کروارہے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب شرپسندوں نے یاسین شیخ کو پکڑا تو ان کے ساتھی پولیس والوں نے انہیں بچانے کی بجائے وہاں سے فرار ہونے میں عافیت سمجھی۔ انہوں نے اپنے ایک ساتھی انسپکٹر کو جنونی بھیڑ کے حوالے کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کی۔
اس قسم کے شرمناک واقعات ملک میں ایک نئے فسطائی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں۔ حکومت کی اعلیٰ قیادت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور وہ سنگین ترین وارداتوں پر بھی کسی ردعمل کے موڈ میں نہیں ہے۔ ظاہر ہے حکومت فی الحال جے این یو جیسے اداروں میں دیش دروہیوں سے نمٹنے میں مصروف ہے۔ ایسے میں وہ ملک کو عالمی سطح پر شرمسار کرنے والے واقعات کا نوٹس لینے کی فرصت ہی کہا ں ہے۔
masoom.moradabadi@gmail.com
اس پوسٹ کے لئے کوئی تبصرہ نہیں ہے.
تبصرہ کیجئے
نام:
ای میل:
تبصرہ:
بتایا گیا کوڈ داخل کرے:


Can't read the image? click here to refresh
خصوصی میں زیادہ دیکھے گئے
http://st-josephs.in/
https://www.owaisihospital.com/
https://www.darussalambank.com

موسم کا حال

حیدرآباد

etemaad rishtey - a muslim matrimony
© 2024 Etemaad Urdu Daily, All Rights Reserved.